حنیف کے تین کم عمر بچے تھے اور وہ بسترِ مرگ پر اپنی حیاتی کے آخری دن کاٹ رہا تھا بیماری کی حالت میں اُسے جہاں اپنے نحیف بدن تک کی ہوش نا رہتی تھی جب وہ اپنے کمسن بچوں کو دیکھتا تھا تو بیماری کے ساتھ ایک پریشانی اور گہری تکلیف دہ سوچ کا اضافہ ہو جاتا تھا اسی اثناء میں ایک روز محلے کی مسجد میں حنیف کے گزر جانے کی خبرِ غم محلے کے ہر گھر میں پہنچی اور یہ آوازبرادری اور دوستوں تک بھی پہنچی تو بعض لوگ جنازے میں شامل ہو پائے باقی رسمِ دنیا کے مطابق بعدمیں فاتحہ پڑھنے آئے جبکہ عمومی طور پر یہ کہا جاتاہے افسوس کرنے جانا ہے حنیف نے سوگواران میں کمسن بچے اور بیوہ چھوڑی تھی اب مسلسل لوگ افسوس کے لیے آرہے تھے محلے میں اور عزیزوں میں بے شمار ایسے لوگ تھے جن کو پروردگار نے بیشمار نعمتوں سے نواز رکھا تھا روتے بچے ہر روز نئے غم میں جا رہے تھے افسوس کا سلسلہ کافی روز جاری رہا افسوس برائے افسوس کی یہ مشق جاری رہی کوئی آکر کہتا کہ حنیف اچھا آدمی تھا تو کوئی پوچھتا بیمار تھا ؟ محلے کی ایک بزرگ خاتون نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹا حنیف انتقال کر گیا ہے آو افسوس کرنے جانا یے ؟اُس نے اپنی والدہ سے کہا امی انکا باپ مرا ہے جا کر افسوس کرنے سے کیا ہو گا کہ سب جائیں افسوس کریں اور اپنے اپنے گھر اسی دوران اس نے کچھ پیسے نکالے اور والدہ کے ہاتھ میں تھما دیے اور کہا حنیف کی بیوہ کو یہ دے کر کہیے گا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو بلا ججھک بتا دینا ساتھ ہی وہ بھی افسوس کی رسم ادا کرنے چل دیا بچوں کو دلاسہ دیا انکو گلے لگایا اور کہا بیٹا سب نے ایک دن خالقِ ازل کے پاس لوٹ جانا ہے آپکے بابا بھی اللہ جی کو ملنے گئے ہیں ہم سب نے بھی ایک ایک کر کے اللہ کے پاس جانا ہے ان بچوں کو ساتھ لیا سکول داخل کروایا اور سکول میں انکی تعلیم کے اخراجات کا زمہ اپنے سر لے لیا شام کو گھر پہنچ کر وہ اپنی ماں جی مخاطب ہوا کہ ماں جی مجھے یہ لگتا ہے دینِ اسلام میں صرف افسوس برائے افسوس نہیں ہے کہ کوئی مر جائے تو صرف فاتحہ خوانی یا افسوس کر کے کام ختم ہو جاتا ہے بلکہ اسکا مطلب یہ ہے جب کسی گھر کا سربراہ یا زمہ دار چل بسے تو جو سینکڑوں لوگ افسوس کرنے جاتے ہیں اگر وہ وہاں موجود مجبوری کو حل نہیں کر پاتے تو یہ عمل بس دکھاوا ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اصلی بات پر کسی نے نظرنہیں دوڑائی اماں جی کو آج تک بیٹے کی باتیں جدید لگتی تھی لیکن یہ بات دل پر اثر کر گئی آواز دے کر بڑے بیٹے کو آواز دی اور کہا میرے بیٹے ہمارے ہمسائے میں حنیف کا انتقال ہوا ہے اسکے بچے اور بیوہ ہیں روزگار کا وسیلہ بھی نہیں ہے انکو ہر ماہ راشن پہنچا دیا کرنا یہ کہتے ہوئے دوسرے بیٹے کا ماتھا چوما اورکہا بیٹا آج میں سمجھی ہوں کہ دینِ اسلام میں مر جانے والے کے گھر صرف افسوس کے لیے ہی نہیں جانا ہوتا