نئے سال میں کامیاب ہونے کےلیے ہمیں کیاکرناہوگا؟

News Submitted By : Ilm Ki Dunya |31-Dec-2020| Views: 1129

ilmkidunya

نئے سال میں کامیاب ہونے کےلیے ہمیں کیاکرناہوگا؟
تحریر:۔رضاثاقب بلوچ
ہم اقوام عالم کے ساتھ نئے سال میں داخل ہورہے ہیں۔قومیں تسخیر کائنات کے عظیم فریضہ میں مصروف عمل ہیں جبکہ ہم چھوٹا گھر بڑا کرناہے،جاب ہرحال میں بہتر کرنی ہے،اس نے پلاٹ خریدلیا تو میں نے بھی ہرحال میں خریدنا،اس نے گاڑی خریدلی تو میں نے بھی خریدنی ہے۔ صبح پٹرول ملے گا یا نہیں، چینی ملے گی یا نہیں جیسی فکروں میں مبتلا ہیں۔
کیا نئے سال میں داخل ہونے کا یہی اندازہے ۔؟
زندگی میں سب کامیاب ہوناچاہتے ہیں لیکن کامیابی کیاہے۔؟کامیابی کی تعریف اور معیارات ہرانسان کے لیے مختلف ہیں جیسے کھلاڑی،سیاستدان اور تاجر کے لیے کامیابی کے معیارات اور تقاضے مختلف ہیں۔
کامیابی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہرعمل کے پیچھے نظریہ ہوتاہے۔لوگوں کےعمل میں فرق نظریہ یعنی جہاں بینی (world view)کی وجہ سے ہوتاہے۔جہاں بینی ہماری بنیادہے جیسی جہاں بینی ہوگی ویسی ہماری آئیڈیالوجی ہوگی جیسی آئیڈیالوجی ہوگی ویسا عمل ہوگا جیسا عمل ہوگا ویسی ہماری کامیابی ہوگی۔
جب جہاں ایک ہے تو کیوں لوگوں کی جہاں بینی مختلف ہے ۔؟کیا چیز اختلاف کا سبب بنتی ہے ۔؟ذرائع علم (source of knowldge)اختلاف کی وجہ ہیں۔دو جمع دو چار ہوتے ہیں مرد سے پوچھیں یا عورت سے پوچھیں،امریکہ میں پوچھیں یا افریقہ و عرب میں پوچھیں سب کہیں گے چارہوتا ہے۔جب یہ سوال پوچھاجائے کہ اس دنیا کو کس نے خلق کیا ہے۔؟اسکا خالق ایک ہے یا دو ۔؟انسان کیسے خلق ہوا۔؟ کیا موت کے بعد کوئی جہاں ہے ۔؟ یہاں مختلف جواب سامنے آتے تویہاں اختلاف کیوں ہے ۔؟جب کہ دونوں سوال جہاں بینی سے متعلق ہیں۔دراصل انسان کا عمل حقیقت پر مبنی نہیں ہے انسان موسم مزاج ہے۔حقیقت تبدیل نہیں ہوتی بلکہ انسان کا مزاج تبدیل ہوتارہتاہے کیونکہ ہماری معرفت اور علم تبدیل ہوتارہتاہے۔
حضرت انسان کے پاس پانچ ذرائع علم یعنی حواس خمسہ(senses)،علم حضوری(theosophy)،الہام(intuition)، وحی(revelation)اور عقل موجود ہیں.
ہم محدود اور ناقص ذرائع علم یعنی حواس خمسہ اور علم حضوری سے ابھی تک گزارہ کررہے الہام اور وحی حصول علم کے خاص کیسز ہیں جو عام حالت میں قابل استفادہ نہیں باقی رہا عقل جوانسان کے امتیاز کی وجہ ہے اس سے ہماری علیک سلیک نہ ہونے کے برابرہے۔ہم نے ابھی تک قابل اعتبار ذرائع علم کا انتخاب نہیں کیابلکہ حواس اور بے وقوفوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔
کھانے،لباس،ہئیر اسٹالز فلاں فلاں چیز اور مادہ پرستی میں غرق ہوکررہ گئے ہیں۔ پیزا کی دس اقسام کا پتا ہوگا لیکن پانچ کتابوں کے نام معلوم نہیں ہوں گے۔بیس اداکاروں اور گلوکاروں کے نام معلوم ہوں گے مگر چار سائنسدانوں کے نام نہیں جانتےہوں گے۔یہ ہم عقل کی دنیا میں جی رہے ہیں۔؟ہم عجیب تضاد کا شکار ہیں ہمارا نظام تعلیم ہمیں گمراہ کن نظریات و خواہشات میں مبتلاء کررہاہے۔کامیابی و ترقی کا معیار اچھے مکان برانڈڈگاڑی اور لباس کی صورت پیش کررہا۔مکان بنانا الگ بات ہے گھربنانا الگ بات ہے مکان بنانے کے لیے پیسوں،سیمنٹ،اینٹ اور سریا کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ گھر بنانے کے لیے لیاقت،اخلاق، کردار،ایثار اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔اچھا مکان چاہیے اچھا کھاناچاہیے اچھی گاڑی چاہیے ان کا حصول ہی کامیابی ہے۔؟ یہ سب ہم کس تسکین کے لیے کررہے عقل یا حواس.؟ترقی فقط آلات (tools)تک محدودہے عقل میں نہیں آئی ۔ہماری جہاں بینی درست نہیں اسی لیے ابھی تک ہم ترقی کا معیارنہیں سمجھ سکے۔عقل کو ہم نے ذریعہ علم نہیں بنایا۔عقل وجہ عظمت انسان ہے۔انفرادی و اجتماعی سطح پر ہم بدقسمتی سے عاقل ہونا ثابت نہیں کرپائے۔بحثیت قوم شایدہم ابھی تک عقلی بلوغ کو نہیں پہنچ پائے۔
ہمارے پاس قرآن و سنت موجود ہے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے لیکن پھر بھی ہم اقوام عالم میں پیچھے کیوں ۔؟معاشی،تعلیمی اورمعاشرتی میدان میں پستی کیوں۔؟ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی ذمہ داریاں اداکرتاہے تو ہمیں اس پر تعجب ہوتاہے مثلاًمحنت کرتاہے،پڑھتاہے،واجبات اداکرتاہے،محرمات سے بچتاہے تو وہ ہمیں انوکھالگتاہے اسکی تعریف کرتے ہیں جبکہ وہ اپنی ذمہ داری اداکررہاہے۔ہم نے کبھی سورج کی تعریف نہیں کی کیا سورج ہے ۔؟کیسا چمک رہاہے۔؟کیسی حرارت و روشنی دے رہاہے ۔؟
پس ضروری ہے کہ ہم عقل کو استعمال کریں اور اپنی زندگی کے بارے غوروفکرکریں۔میں کون ہوں ۔؟میں کیا کررہاہوں۔؟مجھے کیاکرناہے ۔؟جو کررہا ہوں اسکے کیا نتائج ہوں گے۔؟
ہرخالق اپنی تخلیق کے لیے ہدایات ،استعمال کا طریقہ کاراور احتیاطی تدابیر ساتھ لکھ دیتاہے۔نیز اس پراڈکٹ کی خصوصیات اور اجزاء بھی بیان کر دیتاہے۔ایک موبائل فون کمپنی اپنے موبائل کے ساتھ تمام ہدایات لکھ کر بھیجتی ہے تو آیا کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خدائے بزرگ وبرتر اپنی اس عظیم خلقت اشرف المخلوقات کو بغیر سامان ہدایت بغیر کسی دستور اور بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے بھیج دے۔؟
ایک موبائل فون کمپنی کہہ دے کہ اس موبائل فون کو پانی سے دور رکھناہے تو ہم کتنی احتیاط کرتے کیا ایسانہیں ہے کہ خداتعالی نے ہمیں کچھ چیزوں سے کچھ کاموں سے دور رہنے کے لیے کہاہے۔؟کیا ہم نے اپنی ذات کے بارے احتیاطی تدابیر کو پڑھاہے۔؟اپنے دستور حیات کو پڑھا۔؟ دستورحیات یعنی قرآن و عترت۔کیاہم نے تصور فلاح کو درک کیا۔؟اپنے مقصد تخلیق کوجانا۔؟اپنی خصوصیات کو سمجھا ۔؟ہمارا سب سےبڑا مسئلہ مہنگائی،بےروزگاری،لوڈشیڈنگ اور کرپشن نہیں۔ہماری ٹرین وقت پر نہیں پہنچتی،سڑکیں نہیں بن رہیں،سردیوں میں گیس غائب ہوجاتی یہ سب بڑے مسائل نہیں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کردار کا بحران ہے۔ہمارے معنوی،اخلاقی،روحانی اور نفسیاتی کردار کا بحران۔ہم خود پر یقین نہیں کرپاتے،ہم کامیابی کی مثالیں قائم نہیں کررہے.ہمارے فیصلے عقل کی بجائے جذبات و خواہشات کےتابع ہیں یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔کامیابی کے حصول کےلیےہمیں عقل کوجذبات کا رہبر بناناہوگا۔جہاں بینی کی بنیاد عقلی دلائل پررکھناہوگی۔کامیابی کے معیارات اور تقاضوں کا ازسرنوجائزہ لیناہوگا۔عوام سے قوم تک کے سفر کےلیےعازم ہوناہوگا۔شاندار ماضی کی لوریاں سنانے کی بجائے اپنے اپنے حصہ کا چراغ جلاناہوگا۔حادثات کی بجائے حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھناہوگا۔خواہشات کی بجائےبلند اہداف کےلیے جینا ہوگا۔خود پر اعتماد کرناہوگا۔ہم خودشناس نہیں ہمیں وہ آنکھ ڈھونڈنی ہوگی جو ہمیں خود سےآشنا کردے۔
بقول حضرت علامہ اقبال
؎دل بِینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور،دل کا نور نہیں

Is this page helpful?