کیا علوم اسلامی اور غیر اسلامی ہوتے ہیں۔؟ کیا اسلام اور سائنس میں کوئی ٹکراو موجود ہے ۔؟ کیا دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلاجاسکتا ہے.؟ کیا سائنسی علوم پڑھنے سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے. ؟دین دار معاشرہ اور ترقی یافتہ معاشرہ جدا جدا ہیں ۔؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کسی انسان یا معاشرے کو تذبذب میں مبتلا کرکے اس کے علمی ارتقاء میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
کسی بھی علم کی فضلیت کا تعین اسکی افادیت اور نظریات سے کیاجاسکتاہے کہ وہ علم وجود کائنات کے بارے کیا نظریہ رکھتاہے ۔؟ کائنات کا وجود کن اصول و قوانین پر باقی ہے. ؟انسان کے بارے میں وہ علم کیا نظریہ رکھتا ہے ۔؟خود علم کے بارے کیا نظریہ رکھتا ہے.؟ علم کی تعریف کیا ہے.؟ ذرائع علم کیا ہیں. ؟ قابل اعتماد ذرائع علم کیا ہیں.؟ 
انسانی اقدار و روایات کے بارے وہ علم کیا نظریہ رکھتاہے ۔؟
قرون مظلمہ(The dark ages)ساتویں صدی کے اخیر اور آٹھویں صدی کے ابتداءمیں جب امریکہ دریافت تک نہیں ہوا تھا یورپ میں جہالت و بربریت کا دوردورہ تھا۔جب اہل یورپ کو جینے کا سلیقہ نہ تھا حتی اگر کوئی شخص نہاتا تو پادری اسے کوڑے مارتا کہ تم مسلمان ہورہے ہو ۔جب یورپ جہالت کے گھپ اندھیرے میں ڈوباہوا تھا تب مسلمانوں کی قسمت کا ستارہ آب وتاب سے جگمگارہا تھا۔ مسلمانوں نے اہل یورپ کو زندگی گزارنے کے طور طریقے سیکھائے۔مغربی دنیا نے ہم سے علم سیکھا ہے.
تھیوڈروسو(Théodore Rousseau )اپنی کتاب"تاریخ علوم" میں کہتا ہے کہ چار پانچ صدیوں پہلے کوئی تاجر کسی استاد سے رابطہ کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ میں چاہتا ہوں میرا بچہ درس پڑھے تو اسے کس اسکول میں بھیجوں؟
استاد نے جواباً کہتا کہ اگر صرف یہ چار بنیادی چیزیں یعنی جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم ہی تمہارے لیے کافی ہیں تو اسے ہمارے ملک کے کسی بھی اسکول یا دیگر یورپی ممالک کے کسی بھی اسکول میں بھیج دو؛ لیکن اگر تمہیں اس سے زیاده کی ضرورت ہے تو ضروری ہے کہ اسے اندلس یا کسی مسلمانوں کی آبادی والے علاقے میں بھیج دو.صلیبی جنگوں نے ان کی مدد کی کہ ہم سے سیکھ سکیں. ان کے دانشمندوں کی مسلمان علاقوں میں ہجرت کے نتیجے میں انہوں نے ہم سے علوم سیکھے. ہمارے دانشمندوں کی ان کے علاقوں میں ہجرت اور ہماری کتابوں کے ان کے ہاں منتقل ہونے کیوجہ سے انہوں نے ہم سے سیکھا.کل وہ ہمارے شاگرد تھے اور آج ہمارے استاد ہوگئے علامہ محمد اقبال نے اس  زبوں حالی کو وجہ کو یوں بیان کیا ہے۔
 
؎ وہ معززتھے زمانہ میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قراں ہوکر
 
سولہویں صدی تک ہمارے ہاں علوم کی تقسیم کا کوئی تصور موجود نہ تھا تمام علوم طب و جراحت،فلکیات،منطق،فلسفہ،ادب،تاریخ،جغرافیہ،مصوری و موسیقی کی تعلیم کا اہتمام دینی مراکز کرتے تھے گویا دینی مراکز کو یونیورسٹی کی حثیت حاصل تھی ۔اسلامی حکومتوں نے علم و حکمت کی سرپرستی کی اور سائنس کے بڑے بڑے موجد پیدا کیے۔جابر بن حیان بانی کیمیا،بوعلی سیناموجد طب و جراحت،ابن الہیشم بانی طبعیات، ابوالفیض بانی بصریات،عمرالخیام الجبرا کا موجدو دیگر بے شمار عظیم سائنسدان جن کا اعتراف آج بھی مغربی محققین کرتے ہیں۔سولہویں صدی میں برپا ہونے والے مسیحی انقلاب نے دین و دنیا کو جدا جدا کردیا اور دین اور دنیا کے لیے دو الگ الگ نظام متعارف کرائے۔دین مقدس اسلام بھی اس مسیحی انقلاب کے مکروہ اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ہم بھی اس دوئی کا شکار ہوگئے۔
تعلیم کے لیے یونیورسٹیز قائم ہوگئیں اور تربیت کے لیے مدارس۔لادین طبقے کو سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے لایا گیا۔تعلیم و تربیت دو متضاد راستوں پر چل نکلے۔
دونوں کے اہداف الگ ہوگئے۔وہ دین اسلام جو مکمل ضابطہ حیات ہے اسکی غلط تشریح و تفسیر کی گئی۔انسان جوکہ کائنات کو مسخر کرنے کے لیے پیدا ہوااور اس نے جدید علوم کے ذریعے تسخیر کائنات کا فریضہ سرانجام دینا لیکن ہمیں تسخیر کائنات  کی طرف ترغیب کی بجائے اشکالات ملے۔
سائنس بنی نوع انسان کی میراث ہے۔ یہ وہ علم ہے جو مذہب و قومیت کی حدود سے مبراء ہے مگر انسانیت کی یہ مشترکہ میراث متعصب اقوام کے ہاتھ لگ گئی ہے۔
ایک سازش کے تحت ہمارے سامنے ترقی یافتہ اور دینی معاشرے کی جدا جدا مثالیں پیش کی گئیں ترقی یافتہ معاشرہ یعنی انسانیت کی فلاح و بہبود کا مرکز،قوانین کا پاسدار،خوشبوؤں سے معطر،علم و تحقیق کا مرکز، امن وسکون کا گہوارہ، اعلی تعلیم و تہذیب کا علمبردار،پھلتا پھولتا یورپ اور دین دار معاشرہ یعنی قدامت پسند،پسماندہ، مفلسی کا عکاس،جہالت سے متعفن،وحشت اور خوف وہراس کا مرکز، ہر طرف بارود کی پھیلی بدبو،دہشت گردوں کی آماجگاہ، طالبان زدہ افغانستان ۔
مغرب کا یہ دوہرا معیار ہے کہ وہ ہم پر تبدیلی نصاب کےلیے تو زوردیتا ہے لیکن یہ تبدیلی صرف اسلامیات،مطالعہ پاکستان،اردو اور تاریخ تک ہی محدود رہے کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ ہم اپنے دیگر مضامین کو بھی جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگ کریں۔درحقیقت تو مغربی ترقی مسلمانوں کے ایجاد کردہ علوم کی مرہون منت ہے مگر مغرب نے علوم کو ہمیشہ طاقت اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے پہلی اور دوسری جنگ عظیم اس کی روشن مثالیں ہیں۔
لاڑد میکالے کے مرتب کردہ نظام تعلیم نے شیر کو بھیڑ بنادیا ہے۔مسلمانوں کی خودی کو میٹھی نیند سلادیا ہے،ہمارے افکار و نظریات کو بدل ڈالا ہے،اذہان کو مفلوج کردیا ہے۔ہمارے کامیابی اور ناکامی کے معیارات کو بدل ڈالا ہے۔ہمارے حالیہ زوال کی ایک اہم وجہ اس نظام تعلیم کے سبب پروان چڑھنے والے معیارات ہیں۔ اس نظام تعلیم نے ہماری اجتماعی اخلاقیات کی روح قبض کرلی ہے۔کسی بھی قوم کا اجتماعی اداروں کے بارے رویہ،قوانین و ضوابط کے بارے انکی ذہنیت،قومی مقاصد کے حصول کے لیے اس میں کتنا اتحاد و وحدت ہے،وہ کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے کتنی جراءت کردار رکھتی ہے ،تجارت کا کیا حال ہے ۔؟ اسکی عمومی سیرت کیا ہے۔؟ یہ اجتماعی اخلاقیات کسی بھی قوم کا اقوام عالم میں مقام و منزلت کا تعین کرتی ہیں۔
لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے توسط سے اخلاقی پستی ہماری شناخت بن چکی ہے۔وقت کا کوئی احساس نہیں ، وعدے کا کوئی پاس نہیں ہمارے ہاں یہ ایک عمومی چلن بن چکاہے۔
مغرب نے ہمارے مفکرین کے کام سے استفادہ کیا اور ہم انھیں متنازع بناتے رہے۔ایک المیہ ہے کہ انہوں جابربن حیان کے کام سے کس قدراستفادہ کیا اور ہم اسے شیعہ اور سنی ثابت کرنے میں مصروف رہے۔
مغرب کی مسلم دشمنی دراصل انکے مسلمان نظریات بالخصوص ہمارے نظریہ حکومت سے خوف کی ترجمان ہے۔ہمارے سیاسی زورال کی ایک اہم وجہ بھی ہمارا علمی زوال ہے۔
اس مفسد نظام تعلیم نے ہمیں اہداف کی بجائے خواہشات کے ساتھ جینے کا عادی بنادیا ہے۔ہم نے بے تدبیرزندگی گزارنا شروع کردی ہے۔ہم خودفراموش ہوگئے ہیں۔
 
اس علمی بانجھ پن سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ
"پدرم سلطان بود" یعنی میرا باپ سلطان تھامیرے آباءواجداد نے یہ کیا وہ کیا کو چھوڑ کر ہم خودشناس بنیں۔وقت کی ضرورت کو سمجھیں۔اپنی ذمہ داریوں کا تعین کریں اور شاندار ماضی کی لوریاں سنانے کی بجائے اپنے اپنے حصہ کا چراغ جلائیں۔بے شک ہم علم و ایمان کی طاقت سے ہم اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ پاسکتے ہیں ۔لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے توسط سے اخلاقی پستی ہماری شناخت بن چکی ہے۔وقت کا کوئی احساس نہیں ، وعدے کا کوئی پاس نہیں ہمارے ہاں یہ ایک عمومی چلن بن چکاہے۔
مغرب نے ہمارے مفکرین کے کام سے استفادہ کیا اور ہم انھیں متنازع بناتے رہے۔ایک المیہ ہے کہ انہوں جابربن حیان کے کام سے کس قدراستفادہ کیا اور ہم اسے شیعہ اور سنی ثابت کرنے میں مصروف رہے۔
مغرب کی مسلم دشمنی دراصل انکے مسلمان نظریات بالخصوص ہمارے نظریہ حکومت سے خوف کی ترجمان ہے۔ہمارے سیاسی زورال کی ایک اہم وجہ بھی ہمارا علمی زوال ہے۔
اس مفسد نظام تعلیم نے ہمیں اہداف کی بجائے خواہشات کے ساتھ جینے کا عادی بنادیا ہے۔ہم نے بے تدبیرزندگی گزارنا شروع کردی ہے۔ہم خودفراموش ہوگئے ہیں۔
اس علمی بانجھ پن سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ
"پدرم سلطان بود" یعنی میرا باپ سلطان تھامیرے آباءواجداد نے یہ کیا وہ کیا کو چھوڑ کر ہم خودشناس بنیں۔وقت کی ضرورت کو سمجھیں۔اپنی ذمہ داریوں کا تعین کریں اور شاندار ماضی کی لوریاں سنانے کی بجائے اپنے اپنے حصہ کا چراغ جلائیں۔بے شک ہم علم و ایمان کی طاقت سے ہم اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ پاسکتے ہیں ۔

 

About The Author:

Ilmkidunya is one of the biggest educational websites working for the past 18 years to keep the people updated regarding the latest educational news about admission, universities, results, date sheets, and scholarships.


Share your comments questions here
Sort By:
X

Sign in

to continue to ilmkidunya.com

inquiry-image

Free Admission Advice

Fill the form. Our admission consultants will call you with admission options.