کسی بھی ملک کے قومی بیانیے کو دبانا ہو یا اس میں مداخلت کرنی ہو تو  اس سے بولنے کا حق چھین لیا جاتاہے یا اُسے صرف اتنا بولنے دیا جاتا  جتنا ضروری ہے وزیر اعظم پاکستان ،ڈی جی آئی ایس پی آر سمیت بہت سے اہم وزراء و سیاسی لیڈران سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنا پیغام جاری کرتے ہیں جو پہلے ٹویٹر کے زریعے لاکھوں صارفین تک پہنچتا ہے اور بعدازاں میڈیا بھی اسی پیغام کو خبروں میں چلاتا ہے وزیر اعظم پاکستان کے ٹویٹر پر گیارہ ملین صارفین پیروکار ہیں جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر جو کہ افواج پاکستان کے اہم امور کے پیغام جاری کرتے ہیں انکے ٹویٹر پیروکاروں کی تعداد تین اعشاریہ سات ملین ہے جبکہ پاکستان کے تمام بڑے صحافی و سماجی متحرکین بھی بہت اچھے خاصے پیروکار رکھتے ہیں جیسا کہ آپ سب جانتے ابلاغِ عامہ نہایت ضروری ہوتا ہے کسی بھی ملک کے لیے جبکہ پیغام پہنچانے کا اہم ترین زریعہ اب کافی حد تک ٹویٹر بن چکا ہے آپ صرف ایک لمحے کے لیے ٹویٹر کو مائنس کر دیں تو جنابِ عمران خان ،ڈی جی آئی ایس پی آر و دیگر اہم ترین شخصیات کہاں پیغام دیں گے؟ ایک لمحے کے لیے جب میں یہ سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے یہ مائنس بہت ظالم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مائنس ہونے سے ڈائریکٹ رابطہ منقطع ہو جائے گا قارئین یہ ایک پہلو ہے دوسرا پہلو اس سے بھی اہم اور سنگین نوعیت کا اس سارے ضمن میں ہمارا "پیغام" ہائی جیک ہو گیا ہے کوئی بھی ایسی تحریک یا ایسا پیغام روکا جا سکتا ہے جو اس سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے مالکان کے مفاد سے منافی ہے یا کچھ ایسے عناصر کے بیانے کو نقصان پہنچا رہا ہو جو اس ویب سائٹ کو کنٹرول کرتے ہیں جیسا کہ کشمیر یا جہاد سے متعلق چیزوں کو روکا جاتا ہے یہودیوں کے خلاف اگر کوئی بات ہوتی ہے تو اُسے روکا جاتا ہے اور اگر کوئی بات اسلام کے مخالف ہو یا مقدسات سے متعلق ہو تو اسے آزادی اظہارِ رائے کی چھتری کے نیچے چلنے دیا جاتا ہے کیونکہ مالک ہمیشہ مالک ہی ہوتا ہے اور کرایہ دار مالک جیسی ٹھاٹ کبھی قائم نہیں کر سکتا یہ دوسرا پہلو اس قدر ظالم ہے کہ وہ اپنا بیانہ تھوپ سکتے ہیں اور ہمارے بیانیے کو جب چاہیں رد کردیں یا روک دیں یہ جملہ حقوق انکے پاس محفوظ
ہیں ۔
 
اسی طرح سے دوسری سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہیں مطلب فیس بُک وغیرہ لیکن ان کی ساکھ ایسی نہیں ہے جیسی ٹویٹر کی ہے اور ٹویٹر کافی حد تک آفیشل سطح حاصل کر چکا ہے اور یہاں آنے والے ہیغامات کو کافی حد تک آفیشل حیثیت حاصل ہے۔
 
اب یہ تو مسئلہ ہے جس پر روشنی ڈالی گئی ہے اب اسکا تدارک ضروری عمل ہے قارئین اگر کوئی پرائیویٹ کمپنی ایسے سماجی پلیٹ فارمز تیار کرتی ہے تو وہ اتنی سکت نہیں رکھتی کہ اُسے قومی سطح پر مارکیٹ کر سکے لیکن اگر کوئی ایسا پلیٹ فارم سرکار یعنی حکومتِ پاکستان لاتی ہے تو اس کو نا صرف مارکیٹ کیا جا سکتا ہےبلکہ کامیاب بنایا جا سکتا ہے پیغام رسانی کا زریعہ اپنا ہونا ناگزیر ہے کیونکہ میں کہتا ہوں وزیر اعظم صاحب اور ڈی جی آئی ایس پی آر آنکھیں بند کریں اور سوچیں کہ ٹویٹر نہیں ہے تو انکے پیغام کی طاقت کتنی رہ گئی ؟ یا وہ کیا طریقہ ہے اتنے ہی لوگوں تک اتنے وقت میں وہ پیغام پہنچ جائے وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر طیب اردوان اور ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر ایک میڈیا گروپ لانے کا ارادہ کیا تھا جو اسلامی بیانیے کی ترجمانی کرے گا لیکن بد قسمتی سے وہ بھی پایا تکمیل کو نا پہنچ پایا وزیر اعظم عمران خان کو پیچھے ہٹنا پڑا اس سے واضح ہے کہ ایسا عمل ظاہری بات ہے مضبوط بین الاقوامی اپوزیشن کا سبب بن سکتا ہے ڈائریکٹر ڈیجیٹل یو میڈم دعا شاہ کے توسط سے سی ای او گیٹ گروپ باقر بلال حسین نے میری توجہ اس طرف دلائی جب وہ مجھے اپنے پراجیکٹس کے حوالے سے آگاہ کر رہے تھے انہوں نے ایسی ویب سائٹس بنا رکھی ہیں جن کو حکومت لاونچ کرے تو وہ قومی ڈیجیٹل میڈیا کی حیثیت اختیار کر کے کامیاب نتائج لا سکتی ہیں اب حکومتِ پاکستان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پراجیکٹ کو یا تو بذاتِ خود لاونچ کرے (حکومت کے پاس وسائل موجود ہیں) یا حکومت پاکستان کی آئی ٹی کمپنیز سے اسکا بزنس پلان اور پروپوزل بمع مارکیٹنگ پلان مانگے اور اسکو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے طور پر عملی جامہ پہنائے اس سے نا صرف پیغام رسانی کا زریعہ قومی ہو گا بلکہ صارفین کی تعداد سے یہ پراجیکٹ منافع بخش بھی ثابت ہو گا ایک رپورٹ کے مطابق ٹویٹر پانچ سو تین ملین ریونیو کماتا ہے جبکہ پاکستان میں بھی صارفین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔
 
وزیر اعظم عمران خان نے ڈیجیٹل پاکستان کی غرض سے گوگل کے ایک بہترین ریسورس ڈاکٹر تانیہ اندروس کو پاکستان بُلا لیا اب جبکہ ہمارے پاس ایسے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دماغ بھی موجود ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ اس تجویز کے اوپر ضرور غور کیا جائے گا ویسے بھی پاکستان چائنہ کو اپنا بہترین دوست مانتا ہے تو کم از کم دوست سے ہی سیکھ لیں کہ پیغام رسانے کے زرائع اپنے ہونے چاہییں ۔
 
پاکستان کی حکومتوں کو اب منافع کمانے کے حوالے سے سوچنا ہوگا انوسٹمنٹ کر کے آر او آئی لینا ہو گا ایسےمنصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ہوگا جو منافع دیں تب ہی ملک مضبوط ہو سکتا ہے حکومت کو اچھے برے حالات میں ہمیشہ ہی کاروباری حضرات کی ضرورت رہتی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت خود بھی کاروبار کرے اور منافع کمائے ۔

 

About The Author:

Ilmkidunya is one of the biggest educational websites working for the past 18 years to keep the people updated regarding the latest educational news about admission, universities, results, date sheets, and scholarships.


Share your comments questions here
Sort By:
X

Sign in

to continue to ilmkidunya.com

inquiry-image

Free Admission Advice

Fill the form. Our admission consultants will call you with admission options.